کون یاں ساتھ لیے تاج و سریر آیا ہے
یاں تو جو آیا ہے پہلے سو فقیر آیا ہے
عشق لایا ہے فقط ایک ہی سینے کی سپر
حسن باندھے ہوے سو ترکش و تیر آیا ہے
کل کسی شخص نے اس شوخ سے جا کر یہ کہا
آج در پر ترے اک عاشق پیر آیا ہے
پشت خم کردہ عصا ہاتھ میں گردن ہلتی
ضعف پیری سے نہایت ہی حقیر آیا ہے
سن کے یہ شکل و شباہت تیری اس شوخ نے آہ
وہیں معلوم کیا یہ کہ نظیرؔ آیا ہے
غزل
کون یاں ساتھ لیے تاج و سریر آیا ہے
نظیر اکبرآبادی