کون سی منزل ہے جو بے خواب آنکھوں میں نہیں
ایک سورج ڈھونڈھتا ہوں جو کہ سپنوں میں نہیں
دیکھتا رہتا ہوں مٹتے شہر کے نقش و نگار
آنکھ میں وہ صورتیں بھی ہیں کہ گلیوں میں نہیں
موسموں کا رخ ادھر کو ہے ہواؤں کا ادھر
جنگلوں میں بات کوئی ہے کہ شہروں میں نہیں
پیلی پیلی تتلیاں ہیں اور محرومی کا رقص
کون سا وہ ذائقہ ہوگا کہ پھولوں میں نہیں
یوں تو ہر جانب کھڑے ہیں یہ قطار اندر قطار
ایک ٹھنڈک ہے کہ ان پیڑوں کے سایوں میں نہیں
چاند تاروں کی ضیائیں کہکشاؤں کے ہجوم
کون سا وہ آسماں ہے جو زمینوں میں نہیں

غزل
کون سی منزل ہے جو بے خواب آنکھوں میں نہیں
گلزار وفا چودھری