EN हिंदी
کون سے دل میں محبت نہیں جانی تیری | شیح شیری
kaun se dil mein mohabbat nahin jaani teri

غزل

کون سے دل میں محبت نہیں جانی تیری

حیدر علی آتش

;

کون سے دل میں محبت نہیں جانی تیری
جس کو سنتا ہوں وہ کہتا ہے کہانی تیری

کچھ دہن ہی نہیں وہم شعرا کے نزدیک
مو سے باریک کمر بھی ہے گمانی تیری

جس کے آگے سے گزرتا ہے وہ کہتا ہے یہی
دیکھی اے روح رواں ہم نے روانی تیری

شیشۂ مے سے کوئی میری زبانی کہہ دے
خوش نہیں آتی ہے یہ پنبہ دہانی تیری

کیا تری شان ہے قربان ہوں اے عفو کریم
آس رکھتا ہے ہر اک فاسق و زانی تیری

اس خرابی میں ترے واسطے پھرتے ہیں خراب
جستجو ہم کو ہے اے کنج نہانی تیری

عین احساں ہے مرے صفحۂ دل پر مجھ کو
ایک تصویر اگر کھینچ دے مانیؔ تیری

صبح تک شام سے کرتی ہے زباں ذکر جمال
نیند آتی ہے کسے سن کے کہانی تیری

مثل گل ہنس کے کسی روز تو دل کو خوش کر
خوں رلاتی ہے ہمیں غنچہ دہانی تیری

ناز و انداز و ادا میں ہے ترقی دہ چند
فتنہ طفلی تھی قیامت ہے جوانی تیری

کون سے غلہ کا دانہ تو اے دانۂ خال
ہم نے ارزانی میں بھی پائی گرانی تیری

گرم جوشی سے جلایا کرے کشف و خرمن
برق ہو سکتی نہیں شوخی میں ثانی تیری

جان کی طرح سے رکھتا ہے عزیز اے گل رو
داغ دل لالہ نے سمجھا ہے نشانی تیری

مصرع تیغ ہے ہر مصرع موزوں آتشؔ
دیکھ لی یار مری سیف زبانی تیری