کون سا غم ہے مرے دل میں جو مہمان نہیں
مجھ پہ کم یہ بھی مرے یاروں کا احسان نہیں
تیشۂ وقت نے ہر نقش بدل ڈالا ہے
کل کی تصویر مری آج کی پہچان نہیں
کم نہیں مہر درخشاں سے مرا داغ جگر
مطلع صبح سے کم میرا گریبان نہیں
شہر بے مہر میں تو زخم دکھاتا ہے کسے
تیرا پرساں کوئی یاں اے دل نادان نہیں
آؤ مل بیٹھ کے ہم بانٹ لیں بار غم دل
فائدہ سب کا ہے اس میں کوئی نقصان نہیں
دل میں در آئے مرے ہر کوئی دکھ درد سمیت
اس میں وسعت بھی ہے اور در پہ بھی دربان نہیں
روبرو آئینے کے میں ہوں نظر وہ آئے
ہو بھی سکتا ہے یہ ہونا مگر آسان نہیں
دل میں گر فکر کم و بیش نہ ہووے شاہدؔ
تودۂ خاک کم از تخت سلیمان نہیں
غزل
کون سا غم ہے مرے دل میں جو مہمان نہیں
انتصار حسین عابدی شاہد