کون کس کے ساتھ رہتا ہے مکاں ہوتے ہوئے بھی
کون چلتا ہے زمیں پر آسماں ہوتے ہوئے بھی
کون جانے خیر کا پہلو کہیں روشن ہو شاید
ہم تمہارے شہر میں ہیں بے اماں ہوتے ہوئے بھی
تیز بارش میں بھی کتنے پیاس کے مارے پڑے ہیں
دھوپ میں جلتے ہیں کتنے سائباں ہوتے ہوئے بھی
اس اندھیری رات میں وہ چاند نکلے گا یہاں سے
اک دریچہ عین ممکن ہے گماں ہوتے ہوئے بھی
نو شگفتہ اک شجر کا قد نکلنا ہے قیامت
اور اس کا بے خبر ہونا جواں ہوتے ہوئے بھی
کوئی تتلی گل کا چہرہ چومتی رہتی ہے اکثر
پھیلتی رہتی ہے خوشبو رائیگاں ہوتے ہوئے بھی
اس گھنے جنگل کا جلنا اپنی سرحد سے نکلنا
بستیوں کو یاد ہے سب کچھ دھواں ہوتے ہوئے بھی
ماہیٔ بے آب سا بیتاب ہے سارا زمانہ
اور میں شاداب ہوں آتش بجاں ہوتے ہوئے بھی
زندگی میں نے تمہیں ہر حال میں آباد رکھا
روتے ہنستے جیتے مرتے بے نشاں ہوتے ہوئے بھی
راہ شعرستاں سے گزرا ہے کوئی خورشید اکبرؔ
میرؔ و غالبؔ کا علاقہ درمیاں ہوتے ہوئے بھی
غزل
کون کس کے ساتھ رہتا ہے مکاں ہوتے ہوئے بھی
خورشید اکبر

