کون کہتا ہے ٹھہر جانا ہے
رنگ چڑھنا ہے اتر جانا ہے
زندگی سے رہی صحبت برسوں
جاتے جاتے ہی اثر جانا ہے
ٹوٹنے کو ہیں صدائیں میری
خامشی تجھ کو بکھر جانا ہے
خواب ندی سا گزر جائے گا
دشت آنکھوں میں ٹھہر جانا ہے
کوئی دن ہم بھی نہ یاد آئیں گے
آخرش تو بھی بسر جانا ہے
کوئی دریا نہ سمندر نہ سراب
تشنگی بول کدھر جانا ہے
لغزشیں جائیں گی جاتے جاتے
نشہ مانا کہ اتر جانا ہے
نقشہ چھوڑا ہے ہوا نے کوئی
کون سی سمت سفر جانا ہے
زندگی سے ہیں پشیماں ہم بھی
کل یہ دعویٰ تھا کہ مر جانا ہے

غزل
کون کہتا ہے ٹھہر جانا ہے
بکل دیو