کون کہتا ہے مصیبت پر کبھی ماتم نہ کر
موت ہے اک پل کی ساری زندگی ماتم نہ کر
غم نہ کر ان کے دریچوں پر چراغاں ہو گیا
چلتی پھرتی ہے سدا سے روشنی ماتم نہ کر
کربلا سے لے کے ریگستان سینائی تلک
مٹ نہیں سکتی ہماری تشنگی ماتم نہ کر
پھر سے مومن آتش نمرود میں ڈالے گئے
ہے یہی سنت خلیل اللہ کی ماتم نہ کر
کفر ہے اک ملت واحد یہ روشن ہو گیا
مستقل ہے رشتۂ ایمان بھی ماتم نہ کر
کشت مسلم کو ہمیشہ خون سے سینچا گیا
ایک دن ہوگی یہی کھیتی ہری ماتم نہ کر
یہ بھی کیا کم ہے بصیرت کی نظر حاصل ہوئی
دوستوں نے کی جو تجھ سے دشمنی ماتم نہ کر
سیدیؔ تاریخ میں اک دو برس کچھ بھی نہیں
کشمکش ہے اضطراب دائمی ماتم نہ کر
غزل
کون کہتا ہے مصیبت پر کبھی ماتم نہ کر
مظفر علی سید