کون کہتا ہے کی نفرت کو سدا دی جائے
آؤ بس دل میں وفا اور بڑھا دی جائے
ہم سفر لطف سفر اور دوبالا ہوگا
چھاؤں میں دھوپ اگر تھوڑی ملا دی جائے
اب تو وحشت مری چاہت کی یہی کہتی ہے
میں گنہ گار ہوں تو مجھ کو سزا دی جائے
ابر خوشیوں کے بھی برسیں گے یقیں ہے مجھ کو
غم کی چادر تو مرے سر سے ہٹا دی جائے
میں نے اسرار اذیت میں ہی کھلتے دیکھے
بات چھوٹی ہے مگر سب کو بتا دی جائے
عمر پھر اس کی اسیری میں گزاروں جیوتیؔ
پھر سے مجھ کو وہی آزاد فضا دی جائے
غزل
کون کہتا ہے کی نفرت کو سدا دی جائے
جیوتی آزاد کھتری