کون کہتا ہے کہ تم سوچو نہیں
سوچ میں اتنے مگر ڈوبو نہیں
چپ ہیں دیواریں تو کیا بہری بھی ہیں
سب ہمہ تن گوش ہیں بولو نہیں
پھول تو کیا خار بھی منظور ہیں
بے رخی سے یوں مگر پھینکو نہیں
اپنی ہی صورت سے تم ڈر جاؤ گے
آئنے میں آج کل جھانکو نہیں
آج کچھ تم کو زیادہ ہو گئی
جاؤ سو جاؤ میاں الجھو نہیں
فاصلہ وہ ہے کہ بڑھتا جائے گا
لمس کے خوابوں میں یوں بھٹکو نہیں
میں زمیں کا درد ہوں یارو مجھے
آسمانوں کا پتہ پوچھو نہیں
غزل
کون کہتا ہے کہ تم سوچو نہیں
امر سنگھ فگار