کون کہتا ہے کہ محرومی کا شکوہ نہ کرو
ہاں مگر ساقی مے خانہ کو رسوا نہ کرو
ذکر چھڑ جائے اگر قوم کی بد بختی کا
رہنماؤں کی طرف کوئی اشارہ نہ کرو
ذہن سنجیدہ مسائل سے ہٹانے کے لیے
روز یہ شیخ و برہمن کا تماشا نہ کرو
ایک بھی لفظ ہٹانے کی نہیں گنجائش
میرے پیغام محبت کا خلاصہ نہ کرو
یہ تعلق کی خراشیں بھی مزا دیتی ہیں
روٹھ جائے کوئی تم سے تو منایا نہ کرو
آج بھی میں نہیں انساں سے مایوس کہ جب
لوگ کہتے ہیں خدا پر بھی بھروسا نہ کرو
غزل
کون کہتا ہے کہ محرومی کا شکوہ نہ کرو
حفیظ میرٹھی