کون کہے معصوم ہمارا بچپن تھا
کھیل میں بھی تو آدھا آدھا آنگن تھا
کانچ کی چوڑی لے کر میں جب تک لوٹا
اس کے ہاتھوں میں سونے کا کنگن تھا
جو بھی ملا سب بانٹ لیا تھا آپس میں
ایک تھے ہم اور ایک ہی اپنا برتن تھا
عکس نہیں تھا رنگوں کی بوچھاریں تھیں
روپ سے اس کے سہما ہوا ہر درپن تھا
رو دھو کر سو جاتا لیکن درد ترا
اک اک بوند نچوڑنے والا ساون تھا
تجھ سے بچھڑ کر اور تری یاد آئے گی
شاید ایسا سوچنا میرا بچپن تھا
غزل
کون کہے معصوم ہمارا بچپن تھا
شارق کیفی