کون کہاں تک جا سکتا ہے
یہ تو وقت بتا سکتا ہے
عشق میں وحشت کا اک شعلہ
گھر کو آگ لگا سکتا ہے
جذبوں کی شدت کا سورج
زنجیریں پگھلا سکتا ہے
تیری آمد کا اک جھونکا
اجڑا شہر بسا سکتا ہے
آئینے میں جرأت ہو تو
عکس بھی صورت پا سکتا ہے
آنکھوں میں ٹھہرا اک منظر
راہ میں گرد اڑا سکتا ہے
تجھ کو پیہم سوچنے والا
خواب کو ہاتھ لگا سکتا ہے
غزل
کون کہاں تک جا سکتا ہے
ریحانہ روحی