EN हिंदी
کون جانے کتنی باقی کس کے پیمانے میں ہے | شیح شیری
kaun jaane kitni baqi kis ke paimane mein hai

غزل

کون جانے کتنی باقی کس کے پیمانے میں ہے

موہن جاودانی

;

کون جانے کتنی باقی کس کے پیمانے میں ہے
جتنا جس کا ظرف ہے اتنی ہی مے خانہ میں ہے

یہ ترا احسان ہے جو تو نے اپنا غم دیا
غم میں ڈھل جانے کی عادت تیرے دیوانے میں ہے

کیا مری رسوائیوں میں تیری رسوائی نہیں
نام تیرا بھی تو شامل میرے افسانے میں ہے

آنسوؤں میں جگمگاتی ہیں تری پرچھائیاں
کیا چراغاں کا یہ منظر دل کے ویرانے میں ہے

کہہ رہی ہے مجھ سے موہنؔ چشم ساقی بار بار
مے کشی کا لطف پی کر ہی سنبھل جانے میں ہے