کون ہے جو نہ ہوا بندش غم سے آزاد
جز مرے کون رہا دہر میں ناکام مراد
سونپ دوں کیوں نہ بہ دامان تلاطم کشتی
کس کی کب سنتے ہیں بے رحم کنارے فریاد
مجھ سے مت چھین یہ جاگیر غم و رنج ندیم
ہے فقط اس سے ہی کونین دل و جان آباد
دل کے گلزار میں کھل اٹھتی ہے داغوں کی کلی
جب بھی آتی ہے کسی گلرخ و گلفام کی یاد
اب نہ ماضی ہی کا غم ہے نہ تو فردا کی خوشی
خانۂ دل کو کیا تم نے کچھ ایسا برباد
ایک لمحہ بھی مسرت کا میسر نہ ہوا
جانے کس وقت محبت کی رکھی تھی بنیاد
غم غلط کرنے کو آیا تھا ترے در پہ جمالؔ
کیا خبر تھی کہ نہیں تو بھی غموں سے آزاد
غزل
کون ہے جو نہ ہوا بندش غم سے آزاد
ہربنس لال انیجہ جمالؔ