کون ہے درد آشنا سنگ دلی کا دور ہے
دل کا دیا بچایئے آج ہوا کچھ اور ہے
سارے جہاں کی شام غم صبح بہار بن گئی
میری سحر کا مسئلہ آج بھی زیر غور ہے
نشۂ درد کھو گیا ساقی درد سو گیا
محفل دل میں جائیں کیا تشنہ لبی کا دور ہے
خون جگر سے عمر بھر قرض حیات ادا کیا
پھر بھی یہی سنا کئے روز حساب اور ہے
دیر و حرم کے درمیاں ڈھونڈیئے کیوں شمیمؔ کو
ابر و شفق کو دیکھیے میرا خیال اور ہے
غزل
کون ہے درد آشنا سنگ دلی کا دور ہے
شمیم کرہانی