کون گزرا تھا محراب جاں سے ابھی خامشی شور بھرتا ہوا
دھند میں کوئی شے جوں دمکتی ہوئی اک بدن سا بدن سے ابھرتا ہوا
صرف کرتی ہوئی جیسے ساعت کوئی لمحہ کوئی فراموش کرتا ہوا
پھر نہ جانے کہاں ٹوٹ کر جا گرا ایک سایہ سروں سے گزرتا ہوا
ایک عمر گریزاں کی مہلت بہت پھیلتا ہی گیا میں افق تا افق
میرے باطن کو چھوتی ہوئی وہ نگہ اور میں چاروں طرف پانو دھرتا ہوا
یہ جو اڑتی ہوئی ساعت خواب ہے کتنی محسوس ہے کتنی نایاب ہے
پھول پلکوں سے چنتی ہوئی روشنی اور میں خوشبوئیں تحریر کرتا ہوا
میرے بس میں تھے سارے زمان و مکاں لیک میں دیکھتا رہ گیا این و آں
چل دیا لے کے چٹکی میں کوئی زمیں آسماں آسماں گرد کرتا ہوا
اپنی موجودگی سے تھا میں بے خبر دیکھتا کیا ہوں ایسے میں یک دم ادھر
قطع کرتی ہوئی شب کے پہلو میں اک آدمی ٹوٹتا اور بکھرتا ہوا
غزل
کون گزرا تھا محراب جاں سے ابھی خامشی شور بھرتا ہوا
عتیق اللہ