کون آیا راستے آئینہ خانے ہو گئے
رات روشن ہو گئی دن بھی سہانے ہو گئے
کیوں حویلی کے اجڑنے کا مجھے افسوس ہو
سیکڑوں بے گھر پرندوں کے ٹھکانے ہو گئے
جاؤ ان کمروں کے آئینے اٹھا کر پھینک دو
بے ادب یہ کہہ رہے ہیں ہم پرانے ہو گئے
یہ بھی ممکن ہے کہ میں نے اس کو پہچانا نہ ہو
اب اسے دیکھے ہوئے کتنے زمانے ہو گئے
پلکوں پر یہ آنسو پیار کی توہین تھے
آنکھوں سے گرے موتی کے دانے ہو گئے
غزل
کون آیا راستے آئینہ خانے ہو گئے
بشیر بدر