کٹی ہے عمر یہاں ایک گھر بنانے میں
حیا نہ آئی تمہیں بستیاں جلانے میں
بنا دیا تھا جہاں کو خدا نے کن کہہ کر
کروڑوں سال لگے ہیں اسے بسانے میں
فریب دے کے تمہیں کیا سکون ملتا ہے
ہمیں تو لطف ملا ہے فریب کھانے میں
عطا ہو دولت ایماں ہمیں بھی بے پایاں
کمی نہیں ہے خدایا ترے خزانے میں
ہوا کے مد مقابل چراغ رکھ دینا
مزاج عشق رہا ہے یہ ہر زمانے میں
عتیقؔ یہ ہی دعا ہے کہ رہتی دنیا تک
چراغ علم ہو روشن غریب خانے میں
غزل
کٹی ہے عمر یہاں ایک گھر بنانے میں
عتیق مظفر پوری