EN हिंदी
کشتیاں منجدھار میں ہیں ناخدا کوئی نہیں | شیح شیری
kashtiyan manjdhaar mein hain naKHuda koi nahin

غزل

کشتیاں منجدھار میں ہیں ناخدا کوئی نہیں

دیومنی پانڈے

;

کشتیاں منجدھار میں ہیں ناخدا کوئی نہیں
اپنی ہمت کے علاوہ آسرا کوئی نہیں

منزلوں کی جستجو میں آ گئے اس موڑ پر
اب جہاں سے لوٹنے کا راستہ کوئی نہیں

ہم نے پوچھا خود کے جیسا کیا کبھی دیکھا کہیں
مسکرا کر اس نے ہم سے کہہ دیا کوئی نہیں

زندگی کے اس سفر میں تجربہ ہم کو ہوا
ساتھ سب ہیں پر کبھی پہچانتا کوئی نہیں

رفتہ رفتہ عمر ساری کٹ گئی اپنی یہاں
ہم کو لیکن شہر بھر میں جانتا کوئی نہیں