کشمکش میں ہیں تری زلفوں کے زندانی ہنوز
تیرگی پیہم ہے خم در خم پریشانی ہنوز
رکھتے ہیں ہم مقصد تعمیر نو پیش نظر
گرچہ ہیں منجملۂ اسباب ویرانی ہنوز
سطح دریا پر سکوں سا ہے مگر اے سطح بیں
قعر و دریا میں وہی موجیں ہیں طوفانی ہنوز
اب جنوں میں بھی نہیں آتا ہے صحرا کا خیال
شہر حکمت میں ہے وحشت خیز ویرانی ہنوز
پرسش اہل قلم ہو یا نہ ہو ہوتی تو ہے
سنگ مرمر کے مزاروں پر گل افشانی ہنوز
ہم نے رکھ دی قالب اشعار میں چیز دگر
تم نہیں کر پائے تکمیل زباں دانی ہنوز
اشکؔ اصول کسب زر سے تو نہیں ہے آشنا
تشنۂ تکمیل ہے تیری ہمہ دانی ہنوز
غزل
کشمکش میں ہیں تری زلفوں کے زندانی ہنوز
اشک امرتسری