EN हिंदी
کشکول ہے تو لا ادھر آ کر لگا صدا | شیح شیری
kashkol hai to la idhar aa kar laga sada

غزل

کشکول ہے تو لا ادھر آ کر لگا صدا

ضیا جالندھری

;

کشکول ہے تو لا ادھر آ کر لگا صدا
میں پیاس بانٹتا ہوں ضرورت نہیں تو جا

میں شہر شہر خوابوں کی گٹھری لیے پھرا
بے دام تھا یہ مال پہ گاہک کوئی نہ تھا

پتھر پگھل کے ریت کے مانند نرم ہے
درد اتنی دیر ساتھ رہا راس آ گیا

سینوں میں اضطراب ہے گریہ ہوا میں ہے
کیا وقت ہے کہ شور مچا ہے دعا دعا

ہمت ہے تو بلند کر آواز کا علم
چپ بیٹھنے سے حل نہیں ہونے کا مسئلہ

واں شب گزیدہ سینوں کو سورج عطا ہوئے
تم بھی وہاں گئے تھے ضیاؔ تم کو کیا ملا