کشش تو اب بھی غضب کی ہے نازنینوں میں
مگر وہ چاند چمکتا نہیں جبینوں میں
یہ سب کے چہروں میں یکسانیت سی کیسی ہے
حسین تر کوئی جچتا نہیں حسینوں میں
جو میرے ذہن میں تھی سبزہ زار خواب میں تھی
کہاں وہ فصل اگائی گئی زمینوں میں
شعور عمر سے افزوں ہوئی ہے عمر شعور
ہمارے سال گزرنے لگے مہینوں میں
زباں سے روز میں تائید اذان کرتا ہوں
چھپے ہیں بت بھی مگر میری آستینوں میں
نمائشیں نہ فروعی تکلفات یہاں
کہاں تم آ گئے ہم بوریا نشینوں میں
بجز تمہارے نہیں کوئی خانقاہی اب
میں کس کا نام لکھوں اپنے نکتہ چینوں میں

غزل
کشش تو اب بھی غضب کی ہے نازنینوں میں
نشتر خانقاہی