EN हिंदी
کشش تو اب بھی غضب کی ہے نازنینوں میں | شیح شیری
kashish to ab bhi ghazab ki hai nazninon mein

غزل

کشش تو اب بھی غضب کی ہے نازنینوں میں

نشتر خانقاہی

;

کشش تو اب بھی غضب کی ہے نازنینوں میں
مگر وہ چاند چمکتا نہیں جبینوں میں

یہ سب کے چہروں میں یکسانیت سی کیسی ہے
حسین تر کوئی جچتا نہیں حسینوں میں

جو میرے ذہن میں تھی سبزہ زار خواب میں تھی
کہاں وہ فصل اگائی گئی زمینوں میں

شعور عمر سے افزوں ہوئی ہے عمر شعور
ہمارے سال گزرنے لگے مہینوں میں

زباں سے روز میں تائید اذان کرتا ہوں
چھپے ہیں بت بھی مگر میری آستینوں میں

نمائشیں نہ فروعی تکلفات یہاں
کہاں تم آ گئے ہم بوریا نشینوں میں

بجز تمہارے نہیں کوئی خانقاہی اب
میں کس کا نام لکھوں اپنے نکتہ چینوں میں