EN हिंदी
کشش سے دل کی اس ابرو کماں کو ہم رکھا بہلا | شیح شیری
kashish se dil ki us abru-kaman ko hum rakha bahla

غزل

کشش سے دل کی اس ابرو کماں کو ہم رکھا بہلا

شیخ ظہور الدین حاتم

;

کشش سے دل کی اس ابرو کماں کو ہم رکھا بہلا
جو کر قبضے میں دل سب کا پھرے تھا سب سے وہ گہلا

جو گزرا عرش سے یہ نہ فلک کرسی ہے اس آگے
کرے ہے لا مکاں کی سیر عاشق چھوڑ نو محلا

تھکا آخر کو مجنوں غم سے راہ عشق میں میرے
غبار خاطر و آنسو کی بارش دیکھ کر چہلا

گلابی لعل کی ہوئی ہر کلی مے نوش سن تجھ کو
چمن میں ہے کھڑی لے جام نیلم نرگس شہلا

رکھی ہے ہم نے بازی زور سے شمشیر کے دشمن
کیا چاہے تھا سر واسوخت ہو مجھ نقش سے دہلا

تمہارے حسن کے گلشن میں پیارے کچھ نہ چھوڑوں گا
رقیبوں کے سر اوپر چڑھ کے توڑوں گا یہ پھل پہلا

یہ تھا ناجیؔ کو لازم طعن کرنا ہر سخن گو پر
جواب اس غزل کا حاتمؔ نہیں کچھ کام تو کہہ لا