کشش سے دل کی اس ابرو کماں کو ہم رکھا بہلا
جو کر قبضے میں دل سب کا پھرے تھا سب سے وہ گہلا
جو گزرا عرش سے یہ نہ فلک کرسی ہے اس آگے
کرے ہے لا مکاں کی سیر عاشق چھوڑ نو محلا
تھکا آخر کو مجنوں غم سے راہ عشق میں میرے
غبار خاطر و آنسو کی بارش دیکھ کر چہلا
گلابی لعل کی ہوئی ہر کلی مے نوش سن تجھ کو
چمن میں ہے کھڑی لے جام نیلم نرگس شہلا
رکھی ہے ہم نے بازی زور سے شمشیر کے دشمن
کیا چاہے تھا سر واسوخت ہو مجھ نقش سے دہلا
تمہارے حسن کے گلشن میں پیارے کچھ نہ چھوڑوں گا
رقیبوں کے سر اوپر چڑھ کے توڑوں گا یہ پھل پہلا
یہ تھا ناجیؔ کو لازم طعن کرنا ہر سخن گو پر
جواب اس غزل کا حاتمؔ نہیں کچھ کام تو کہہ لا
غزل
کشش سے دل کی اس ابرو کماں کو ہم رکھا بہلا
شیخ ظہور الدین حاتم