کرتے بھی کیا حضور نہ جب اپنے گھر ملے
دشمن سے ہم کبھی نہ ملے تھے مگر ملے
بلبل پہ ایسی برق گری آندھیوں کے ساتھ
گھر کا پتہ چلا نہ کہیں بال و پر ملے
ان سے ہمیں نگاہ کرم کی امید کیا
آنکھیں نکال لیں جو نظر سے نظر ملے
وعدہ غلط پتے بھی بتائے ہوئے غلط
تم اپنے گھر ملے نہ رقیبوں کے گھر ملے
افسوس ہے یہی مجھے فصل بہار میں
میرا چمن ہو اور مجھی کو نہ گھر ملے
چاروں طرف ہے شمع محبت کی روشنی
پروانے ڈھونڈ ڈھونڈ کے لائی جدھر ملے
غزل
کرتے بھی کیا حضور نہ جب اپنے گھر ملے
قمر جلالوی