کرتا ہے وہ جفا تو کرے میں وفا کروں
یوں اپنی دوستی کا فریضہ ادا کروں
اس کا شعار وہ ہے یہ میرا شعار ہے
اس کی جفا کے نام میں اپنی وفا کروں
اس کا کبھی جواب نہ آیا نہ آئے گا
یہ جانتے ہوئے بھی اسے خط لکھا کروں
وعدے پہ اس کے آنے کے گھر کو سجا لیا
اب اس کے بعد بھی نہ وہ آئے تو کیا کروں
اک لمحہ میری سمت کو وہ ملتفت تو ہو
وہ حال دل سنے تو بیاں مدعا کروں
کی اس نے ہر قدم پہ جفاؤں کی انتہا
میں بھی نہ کیوں وفاؤں کی پھر انتہا کروں
جس نے مری حیات کو تاریک کر دیا
پھر بھی میں اس کی راہ میں روشن دیا کروں
وہ ہے جو میرے قتل کا ساماں کیے ہوئے
میرا نہیں شعار کہ میں بد دعا کروں
غالب کی یہ زمین ہے شائقؔ خدا گواہ
کیوں کر میں اس زمین کا رتبہ سوا کروں
غزل
کرتا ہے وہ جفا تو کرے میں وفا کروں
ریاضت علی شائق