کرتا ہے رحم کون کسی بے گناہ پر
پڑتے ہیں تازیانے یہاں داد خواہ پر
شکوہ ہے بے وفائی جاناں کا اس قدر
ہم مر چلے ہنوز نہ آئے وہ راہ پر
دل خود ہوا اسیر زنخدان یار میں
لاتی ہے تشنگی ہی پیاسے کو چاہ پر
شبنم کو محو کرتا ہے جس طرح آفتاب
یارب نگاہ مہر ہو میرے گناہ پر
عاشق پہ رحم کر شہ خوباں اگر ہے تو
واجب ہے شفقت غربا بادشاہ پر
وہ چہرۂ کتابی ہے زلف دوتا میں یوں
مصحف کو جیسے رکھتے ہیں دست گواہ پر
غزل
کرتا ہے رحم کون کسی بے گناہ پر
شعور بلگرامی