کرو ہم کو نہ شرمندہ بڑھو آگے کہیں بابا
ہمارے پاس آنسو کے سوا کچھ بھی نہیں بابا
کٹورا ہی نہیں ہے ہاتھ میں بس فرق اتنا ہے
جہاں بیٹھے ہوئے ہو تم کھڑے ہم بھی وہیں بابا
تمہاری ہی طرح ہم بھی رہے ہیں آج تک پیاسے
نہ جانے دودھ کی ندیاں کدھر ہو کر بہیں بابا
صفائی تھی سچائی تھی پسینے کی کمائی تھی
ہمارے پاس ایسی ہی کئی کمیاں رہیں بابا
ہماری آبرو کا ہے سوال اب سب سے مت کہنا
وہ باتیں ہم نے جو تم سے ابھی کھل کر کہیں بابا
غزل
کرو ہم کو نہ شرمندہ بڑھو آگے کہیں بابا
کنور بے چین

