کرگس کو سرخاب بنانا چاہو گے
حاصل کو نایاب بنانا چاہو گے
کیا مشکل کو مشکل ہی رہنے دو گے
دریا کو پایاب بنانا چاہو گے
چشم کرم کی لذت بھی مل جائے گی
آنکھوں کو خوناب بنانا چاہو گے
بزم چمن ویران ہے تم کب آؤ گے
کب اس کو شاداب بنانا چاہو گے
جس کے کنارے پیاسا پیاسا مر جائے
پانی کو تیزاب بنانا چاہو گے
جنگل جنگل آگ لگائے جاتے ہو
شعلوں میں گرداب بنانا چاہو گے
سجدہ کرنے دے گی یہ مغرور انا
پیشانی مہتاب بنانا چاہو گے
غزل
کرگس کو سرخاب بنانا چاہو گے
اسریٰ رضوی