کریں گے سب یہ دعویٰ نقد دل جو ہار بیٹھے ہیں
خفیفہ میں تمہارے عاشق نادار بیٹھے ہیں
عجب کیا عاشقوں کو دل میں یہ معشوق کہتے ہوں
یہ کیوں گھر گھیر کر میرا خدا کی مار بیٹھے ہیں
شب فرقت کا اک دریائے غم ہے بیچ میں حائل
جو میں اس پار بیٹھا ہوں تو وہ اس پار بیٹھے ہیں
کوئی ہے اطلاع اس وقت کر دے جا کے تھانے پر
وہ میرے قتل پر کھینچے ہوئے تلوار بیٹھے ہیں
سفیدی خانۂ دل میں سیہ کاروں کے پھیریں گے
نہیں منبر پہ واعظ پاڑ پر معمار بیٹھے ہیں
پکڑ کر کان اپنا درس گاہ عشق میں عاشق
ہزاروں بار اٹھے ہیں ہزاروں بار بیٹھے ہیں
کہا کرتے تھے والد قیس کے فرط محبت میں
نہیں معلوم کس جنگل میں بر خوردار بیٹھے ہیں
ظریفؔ اب فائدہ کیا شاعروں کو سردی کھانے سے
غزل ہم پڑھ چکے گھر جائیں کیوں بیکار بیٹھے ہیں
غزل
کریں گے سب یہ دعویٰ نقد دل جو ہار بیٹھے ہیں
ظریف لکھنوی