کریں نہ یاد شب حادثہ ہوا سو ہوا
بھلا دیں آؤ ہر اک واقعہ ہوا سو ہوا
برا ہوا کہ لڑے جاں نثار آپس میں
برا ہے اور بھی یہ تذکرہ ہوا سو ہوا
غضب ہوا کہ نئے لوگ آ بسے دل میں
بچھڑنا ان سے الگ سانحہ ہوا سو ہوا
کہاں کہاں سے نہ آفت کی آندھیاں آئیں
دیار قلب میں جو زلزلے ہوا سو ہوا
بہت سے کانٹے گرے پھول بن کے دامن میں
گلوں کی ذات سے جو فائدہ ہوا سو ہوا
پہن کے دوست بھی نکلے لباس طنز حسنؔ
وہ اپنی آن میں بے قاعدہ ہوا سو ہوا

غزل
کریں نہ یاد شب حادثہ ہوا سو ہوا
حسن نعیم