کریں ہم کس کی پوجا اور چڑھائیں کس کو چندن ہم
صنم ہم دیر ہم بت خانہ ہم بت ہم برہمن ہم
در و دیوار ہی نظروں میں اپنی آئینہ خانہ
کیا کرتی ہیں گھر بیٹھی ہی اپنا آپ درشن ہم
محبت ہے تو اپنے سے عداوت ہے تو اپنے سے
ہیں آپ ہی دوست اپنے ہم ہیں آپ ہی اپنے دشمن ہم
کب اٹھتی ہیں اٹھائے سے کسی شیخ و برہمن کے
در دل پر ہی اپنے مار کر بیٹھے ہیں آسن ہم
جسے غیب آپ سمجھے ہیں شہادت جس کو جانے ہیں
بنا رکھی ہیں اپنی دل لگی کی یہ گھر آنگن ہم
ہدایت ہم سے ہی پیدا ضلالت ہم پہ ہی شیدا
کبھی ہیں رہنما اپنے کبھی ہیں اپنے رہزن ہم
نہ قیل و قال سے مطلب نہ شغل اشغال سے مطلب
مراقب اپنے رہتے ہیں کا کر اپنی گردن ہم
رہا کرتی ہیں پہروں محو نظارہ میں ہم اپنے
سراپا ہو رہے ہیں اب تو اپنے آپ درپن ہم
ہوا اے فیضؔ معلوم ایک مدت میں ہمیں تھی وہ
جپا کرتے تھے جس کے نام کی دن رات سمرن ہم

غزل
کریں ہم کس کی پوجا اور چڑھائیں کس کو چندن ہم
فیض دکنی