EN हिंदी
کرب وحشت الجھنیں اور اتنی تنہائی کہ بس | شیح شیری
karb wahshat uljhanen aur itni tanhai ki bas

غزل

کرب وحشت الجھنیں اور اتنی تنہائی کہ بس

حمدون عثمانی

;

کرب وحشت الجھنیں اور اتنی تنہائی کہ بس
جانے کیوں تقدیر نے لی ایسی انگڑائی کہ بس

جب کبھی بھولے سے بھی آئینہ دیکھا تیرے بعد
اپنی ہی صورت میں وہ صورت نظر آئی کہ بس

توڑنے جب بھی چلا زندان آب و گل کو میں
جانی پہچانی ہوئی آواز اک آئی کہ بس

چلچلاتی دھوپ غم کی حادثوں کے سائباں
سوچ کا تپتا یہ صحرا اور یہ پروائی کہ بس

کاش نا بینا ہی رہتا اس مقار خانہ میں
تحفۃً دنیا نے دی ہے ایسی بینائی کہ بس

نوچتی کب تک رہیں گی یوں برہنہ خواہشیں
تا بہ کے ہوتی رہے گی ایسی رسوائی کہ بس

میں ہوں اے حمدونؔ اک زندہ گرفتار لحد
اپنی ہی تقدیر سے ٹھوکر وہ ہے کھائی کہ بس