کرب آنکھوں سے عیاں دل میں کسک باقی ہے
تیرے جانے کی خلش آج تلک باقی ہے
اس کی خواہش کا شجر خشک نہیں ہو سکتا
جس کی ہر شاخ تمنا میں لچک باقی ہے
پھر کسی شام کے رخسار پہ رکھ دے گا وہ
دن کے چہرے پہ جو تھوڑا سا نمک باقی ہے
سینکڑوں بار نسیمؔ اس کو تو دیکھا ہے مگر
پھر بھی لگتا ہے ابھی ایک جھلک باقی ہے

غزل
کرب آنکھوں سے عیاں دل میں کسک باقی ہے
نسیم احمد نسیم