EN हिंदी
کرم ان کا خود ہے بڑھ کر مری حد التجا سے | شیح شیری
karam un ka KHud hai baDh kar meri hadd-e-iltija se

غزل

کرم ان کا خود ہے بڑھ کر مری حد التجا سے

آرزو لکھنوی

;

کرم ان کا خود ہے بڑھ کر مری حد التجا سے
مجھے سوء ظن نہیں ہے کہ دعا کروں خدا سے

دل مطمئن کی وسعت کوئی کم ہے ماسوا سے
مجھے کاہے کی کمی ہے جو طلب کروں خدا سے

ہوئی ختم غم کی آندھی وہی دل کی لو ہے اب بھی
یہی شعلہ تھا وہ شعلہ کہ لڑا کیا ہوا سے

کہے کون اسے پتنگا جو ہے شعلے پر دھواں سا
تجھے لے اڑے ہیں کتنا ترے پر ذرا ذرا سے

جو ہے سب کا دینے والا میں اسی کو چاہتا ہوں
مری بھیک وہ نہیں ہے کہ ملے کسی گدا سے

یہ ہے قصر زندگانی کہ حباب بحر فانی
ابھی بن گیا ہوا سے ابھی مٹ گیا ہوا سے

یہ خیال خود ہے ایسا جو خوشی بنا دے غم کو
کہ ہے ابتدا خوشی کی مرے غم کی انتہا سے

مرا دل رضا پہ راضی کرم اس کا جوش پر ہے
جو اب آ گئی زباں تک تو اثر گیا دعا سے

مری لاکھ منتوں پر تری اک حیا ہے بھاری
کوئی پردہ ہے وہ پردہ کہ ہلے ڈلے ہوا سے

ترے پاکباز الفت نہیں ہارنے کے ہمت
جو مریں گے ڈوب کر بھی تو مریں گے رہ کے پیاسے

کسی دل کی آس یوں بھی کبھی آرزوؔ نہ ٹوٹے
یہ کہے بنی ہے دم پر وہ کہے مری بلا سے