کرم نوازو نے کوشش ہزار کی ہے تو کیا
مرے نصیب میں راحت نہیں لکھی ہے تو کیا
تونگری ہو کہ افلاس چار دن کی ہے
یہ زندگی ہے تو کیا ہے وہ زندگی ہے تو کیا
عبث ہے فخر سنا کر فسانۂ اسلاف
وہ شکل آج نہیں ہے کبھی رہی ہے تو کیا
جب ایک کار نمایاں نہ کر سکے کوئی
تو پھر ہزار برس کی بھی زندگی ہے تو کیا
کریں ہزار جتن رہبران راہ سلوک
فضا ہی دشمن ایمان و آگہی ہے تو کیا
گنوا دی دولت عقبیٰ حصول دنیا میں
وہاں کی خیر منائیں یہاں سبھی ہے تو کیا
اسے شکستگیٔ دل پسند ہے محمودؔ
شکستگی سے نہ ڈریے شکستگی ہے تو کیا
غزل
کرم نوازو نے کوشش ہزار کی ہے تو کیا
محمود رائے بریلوی