کرم نہیں تو ستم ہی سہی روا رکھنا
تعلقات وہ جیسے بھی ہوں سدا رکھنا
کچھ اس طرح کی ہدایت ملی ہے اب کے مجھے
کہ سر پہ قہر بھی ٹوٹیں تو دل بڑا رکھنا
نہ آنسوؤں کی رواں نہر آنکھ سے کرنا
اب اس کی یاد بھی آئے تو حوصلہ رکھنا
کسے ملا ہے ملے گا کسے مراد کا پھل
سو غائبانہ نوازش کی آس کیا رکھنا
عجب نہیں کہ ورود حبیب ہو جائے
زمانہ تنگ نظر ہے تو دل کھلا رکھنا
جو دوستی کے لئے بے قرار رہتا ہے
وہ کوئی چال نہ چل جائے پھر پتا رکھنا
ستارہ عرش سے ٹوٹے گا ایک فرش کی سمت
تم اپنا گھر در و دیوار تک سجا رکھنا
وفا شعار بھی قدرت تھا روٹھنے والا
روایتاً بھی نہ نام اس کا بے وفا رکھنا
غزل
کرم نہیں تو ستم ہی سہی روا رکھنا
یٰسین قدرت