EN हिंदी
کرم کے نام پہ ان کا عتاب چاہتے ہیں | شیح شیری
karam ke nam pe un ka itab chahte hain

غزل

کرم کے نام پہ ان کا عتاب چاہتے ہیں

فطرت انصاری

;

کرم کے نام پہ ان کا عتاب چاہتے ہیں
نگاہ شوق کو ہم کامیاب چاہتے ہیں

سکون دل میں غم و اضطراب چاہتے ہیں
ہم ایسے لوگ بھی کیا انقلاب چاہتے ہیں

چمن میں عہد بہاراں کی آرزو کر کے
قفس نصیب قفس پر عذاب چاہتے ہیں

یہ آزمائش قلب و نظر معاذ اللہ
تمہارے جلوے کو ہم بے نقاب چاہتے ہیں

مجھے رقیب سمجھ کر جو میرے محسن ہیں
مری نظر کا حسیں انتخاب چاہتے ہیں

جہاں خلوص تجارت کے فن میں ڈھل جائے
ہم ایسی دنیا سے اب اجتناب چاہتے ہیں

یہ اہل حسن کی فطرت عجیب فطرت ہے
سوال کرنے سے پہلے جواب چاہتے ہیں