کرم کے نام پہ ان کا عتاب چاہتے ہیں
نگاہ شوق کو ہم کامیاب چاہتے ہیں
سکون دل میں غم و اضطراب چاہتے ہیں
ہم ایسے لوگ بھی کیا انقلاب چاہتے ہیں
چمن میں عہد بہاراں کی آرزو کر کے
قفس نصیب قفس پر عذاب چاہتے ہیں
یہ آزمائش قلب و نظر معاذ اللہ
تمہارے جلوے کو ہم بے نقاب چاہتے ہیں
مجھے رقیب سمجھ کر جو میرے محسن ہیں
مری نظر کا حسیں انتخاب چاہتے ہیں
جہاں خلوص تجارت کے فن میں ڈھل جائے
ہم ایسی دنیا سے اب اجتناب چاہتے ہیں
یہ اہل حسن کی فطرت عجیب فطرت ہے
سوال کرنے سے پہلے جواب چاہتے ہیں

غزل
کرم کے نام پہ ان کا عتاب چاہتے ہیں
فطرت انصاری