EN हिंदी
کرم کا اور ہے امکاں کھلے تو بات چلے | شیح شیری
karam ka aur hai imkan khule to baat chale

غزل

کرم کا اور ہے امکاں کھلے تو بات چلے

عزیز حامد مدنی

;

کرم کا اور ہے امکاں کھلے تو بات چلے
اس التفات کا عنواں کھلے تو بات چلے

کس انتظار میں تھی روح خود نمائی گل
برس کے ابر بہاراں کھلے تو بات چلے

کچھ اب کے ہم بھی کہیں اس کی داستان وصال
مگر وہ زلف پریشاں کھلے تو بات چلے

جفا یہ سلسلۂ صد ہزار عنواں ہے
قمیص یوسف کنعاں کھلے تو بات چلے

سفر ہے اور ستاروں کا اک بیاباں ہے
مسافری کا بھی امکاں کھلے تو بات چلے

طلسم شیوۂ یاراں کھلا تو کچھ نہ ہوا
کبھی یہ حبس دل و جاں کھلے تو بات چلے

سلگ رہا ہے افق بجھ رہی ہے آتش مہر
رموز ربط گریزاں کھلے تو بات چلے