کر لیا محفوظ خود کو رائیگاں ہوتے ہوئے
میں نے جب دیکھا کسی کو بد گماں ہوتے ہوئے
مصلحت کوشی مری فطرت میں شامل ہی نہ تھی
دھوپ میں جھلسا کیا میں سائباں ہوتے ہوئے
رفتہ رفتہ رونق بازار بڑھتی ہی گئی
وقت کے چہرے پہ زخموں کے نشاں ہوتے ہوئے
گر یوں ہی جاری رہا اس کے ستم کا سلسلہ
ٹوٹ جاؤں گا میں اک دن سخت جاں ہوتے ہوئے
خشک ہونٹوں کے سہارے مجھ کو پہچانا گیا
بزم ساقی میں ہجوم تشنگاں ہوتے ہوئے
اس کے جی میں جو بھی آیا وہ مجھے کہتا رہا
اور میں خاموش تھا منہ میں زباں ہوتے ہوئے
دیکھ کر خود اپنی صورت سخت حیرانی ہوئی
جب میں گزرا آئینوں کے درمیاں ہوتے ہوئے
محو حیرت ہو کے ناظرؔ دیکھتا ہی رہ گیا
لمحہ لمحہ اپنی سانسوں کا زیاں ہوتے ہوئے
غزل
کر لیا محفوظ خود کو رائیگاں ہوتے ہوئے
ناظر صدیقی