EN हिंदी
کر کے ساری حدوں کو پار چلا | شیح شیری
kar ke sari hadon ko par chala

غزل

کر کے ساری حدوں کو پار چلا

توقیر احمد

;

کر کے ساری حدوں کو پار چلا
آج پھر سے میں کوئے یار چلا

اس نے وعدہ کیا تھا ملنے کا
کر کے اس پر میں اعتبار چلا

جانے کیا بات اس میں ایسی تھی
اس کی جانب جو بار بار چلا

مٹ گئے غم مل گئیں خوشیاں
رب کو دل سے جو میں پکار چلا

کیوں ہو بے کیف زندگی اس کی
لے کے توقیرؔ ماں کا پیار چلا