کر کے خواب آنکھ میں پہلے تو وہ لائے خود کو
اور پھر مجھ کو جگانے کو ستائے خود کو
ہے یہ لازم کہ ملائک بھی بشر ہو جائیں
اب جو انسان فرشتہ نظر آئے خود کو
آخری مرحلہ آیا ہے محبت کا اب
اب دیا خود ہی بجھا کر بھی دکھائے خود کو
وہ پذیرائی کہیں عشق میں ملتی ہی نہیں
جو بھی روٹھا ہے وہ اب خود ہی منائے خود کو
مجھ میں تو تجھ میں تلاشوں ہوں میں سیرت اپنی
سنگ اس طرز پہ آئینہ بلائے خود کو
وقت دنیا کو سمجھنے میں کریں ضائع کیا
حیف اب تک تو نہ ہم ہی سمجھ آئے خود کو
رہزن عصر ہی لے جائے نہ آگے کی راہ
کہہ دو عاطفؔ سے کہ تیزی سے بڑھائے خود کو
غزل
کر کے خواب آنکھ میں پہلے تو وہ لائے خود کو
عاطف خان