EN हिंदी
کر کے خواب آنکھ میں پہلے تو وہ لائے خود کو | شیح شیری
kar ke KHwab aankh mein pahle to wo lae KHud ko

غزل

کر کے خواب آنکھ میں پہلے تو وہ لائے خود کو

عاطف خان

;

کر کے خواب آنکھ میں پہلے تو وہ لائے خود کو
اور پھر مجھ کو جگانے کو ستائے خود کو

ہے یہ لازم کہ ملائک بھی بشر ہو جائیں
اب جو انسان فرشتہ نظر آئے خود کو

آخری مرحلہ آیا ہے محبت کا اب
اب دیا خود ہی بجھا کر بھی دکھائے خود کو

وہ پذیرائی کہیں عشق میں ملتی ہی نہیں
جو بھی روٹھا ہے وہ اب خود ہی منائے خود کو

مجھ میں تو تجھ میں تلاشوں ہوں میں سیرت اپنی
سنگ اس طرز پہ آئینہ بلائے خود کو

وقت دنیا کو سمجھنے میں کریں ضائع کیا
حیف اب تک تو نہ ہم ہی سمجھ آئے خود کو

رہزن عصر ہی لے جائے نہ آگے کی راہ
کہہ دو عاطفؔ سے کہ تیزی سے بڑھائے خود کو