کر گیا میرے دل و جاں کو معطر کوئی
چھو کے اس طرح سے گزرا مجھے اکثر کوئی
جتنی نظریں تھیں اسی شخص میں الجھی ہوئی تھیں
جا رہا تھا سر بازار سنبھل کر کوئی
کون سا حادثہ گزرا نہیں اس پر اس بار
اور وہ ہے کہ شکایت نہیں لب پر کوئی
دل کو دل ان کی نگاہوں نے بنایا ورنہ
ایسا بے درد تھا دل جیسے کہ پتھر کوئی
چاند تاروں پہ نظر ٹھہرے تو یوں لگتا ہے
تیرے جیسا ہے پس پردۂ منظر کوئی
وقت ٹھہرا ہوا لگتا تھا سر رہ گزر
اس طرح دیکھ رہا تھا مجھے مڑ کر کوئی
حسن شیریں میں بھی تھا حسن تو عذرا میں بھی تھا
نہ ہوا میرے طرحدار کا ہمسر کوئی
آئنہ اپنے مقدر پہ نہ کیوں ناز کرے
مڑ کے اک بار اسے دیکھے جو سنور کر کوئی
کتنے طوفان چھپے ہیں تہہ ہر موج بشیرؔ
آج کا دور ہے یا جیسے سمندر کوئی
غزل
کر گیا میرے دل و جاں کو معطر کوئی
بشیر فاروقی