EN हिंदी
کر چکا قید سے جس وقت کہ آزاد مجھے | شیح شیری
kar chuka qaid se jis waqt ki aazad mujhe

غزل

کر چکا قید سے جس وقت کہ آزاد مجھے

مردان علی خاں رانا

;

کر چکا قید سے جس وقت کہ آزاد مجھے
ہاتھ ملتا ہی رہا دیکھ کے صیاد مجھے

عمر بھر یوں تو کبھی لی بھی نہ کروٹ پس مرگ
حیف رہ رہ کے کیا کرتے ہیں اب یاد مجھے

حکم درباں کو ہے زنہار نہ آنے پائے
غیر کے سامنے کرتے ہیں مگر یاد مجھے

باغباں گلشن عالم کا میں وہ بلبل ہوں
طائر سدرہ کہا کرتا ہے استاد مجھے

ہم صفیروں کو مرا حال کھلے گا پس مرگ
دیکھنا دل میں کریں گے وہ بہت یاد مجھے

صحن‌ گلشن میں مرے پھول کریں گے گلچیں
روئے گا سونا قفس دیکھ کے صیاد مجھے

راہ الفت میں ملاقات ہوئی کس کس سے
دشت میں قیس ملا کوہ میں فرہاد مجھے

غیب سے ہوتے ہیں القا مرے دل میں مضمون
دیکھ فیضان سخن کا ہے خداداد مجھے

سبز باغ آتا ہے دنیا کا نظر جب رعناؔ
یاد آتی ہے بہت حسرت شداد مجھے