EN हिंदी
کر برا تو بھلا نہیں ہوتا | شیح شیری
kar bura to bhala nahin hota

غزل

کر برا تو بھلا نہیں ہوتا

ابن مفتی

;

کر برا تو بھلا نہیں ہوتا
کر بھلا تو برا نہیں ہوتا

اک وہی لاپتہ نہیں ہوتا
جس کو اپنا پتا نہیں ہوتا

سب نشانے اگر صحیح ہوتے
تیر کوئی خطا نہیں ہوتا

کون عاشق ہے کون ہے معشوق
پیار میں فیصلہ نہیں ہوتا

کوئی ایسی جگہ ہی دکھلاؤ
جس جگہ پر خدا نہیں ہوتا

کوچۂ یار جو نہ جاتا ہو
راستہ راستہ نہیں ہوتا

کامیابی کے راستوں کی طرف
بیچ کا راستا نہیں ہوتا

ساری دنیا تو ہو گئی میری
اک فقط تو مرا نہیں ہوتا

دل نظر پر اگر نظر رکھتے
پیار کا حادثہ نہیں ہوتا

جب تلک تو نہ ہو خیالوں میں
کوئی سجدہ روا نہیں ہوتا

اس کی مخمور آنکھ کے آگے
مے کدہ مے کدہ نہیں ہوتا

کوششیں خود ہی کرنا پڑتی ہیں
بھیڑ میں راستہ نہیں ہوتا

ایک عرصہ ہوا کہ نیند سے بھی
آمنا سامنا نہیں ہوتا

پیار ہو جائے کب کہاں کس سے
یہ کسی کو پتا نہیں ہوتا

ہم نے دیکھا ہے روبرو ان کے
آئینہ آئینہ نہیں ہوتا

صدقہ خیرات کیجئے صاحب
مسکرانا برا نہیں ہوتا

کیا کرامت بھی اب نہیں ہوگی
مانا اب معجزہ نہیں ہوتا

ہاتھ مشکل میں چھوڑ جاتے ہو
یہ تو پھر تھامنا نہیں ہوتا

پہلے نظریں اٹوٹ تھیں اور اب
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا

مفتیؔ ہم ہی بھنور نصیب رہے
ورنہ ساحل پہ کیا نہیں ہوتا