کنار بحر ہے دیکھوں گا موج آب میں سانپ
یہ وقت وہ ہے دکھائی دے ہر حباب میں سانپ
وہ کون تھا مرا ہم زاد تو نہ تھا کل رات
جب اس کے نام کو پوچھا کہا جواب میں سانپ
اسے مظاہر ہستی سے سخت الفت تھی
ملا وہ شخص چھپائے ہوئے نقاب میں سانپ
گزشتہ رات مجھے پڑھتے وقت وہم ہوا
ورق پہ حرف نہیں ہیں یہ ہیں کتاب میں سانپ
یہ ڈھلتی رات یہ کمرے میں گونجتا صحرا
امڈتا خوف ہے دل میں کہ پیچ و تاب میں سانپ
تمام جلوۂ وحدت ہے شام ہو کہ سحر
ہے جس حساب میں صحرا اسی حساب میں سانپ
غزل
کنار بحر ہے دیکھوں گا موج آب میں سانپ
شمس الرحمن فاروقی