کمرے کی دیواروں پر آویزاں جو تصویریں ہیں
عہد گزشتہ کے خوابوں کی بکھری ہوئی تعبیریں ہیں
ان کے خط محفوظ ہیں اب تک میرے خطوط کی فائل میں
قسمیں وعدے عہد و پیماں پیار بھری تحریریں ہیں
ہاتھ کی ریکھا دیکھنے والے میرا ہاتھ بھی دیکھ ذرا
بر آئیں امیدیں جن سے ایسی کہیں لکیریں ہیں
پھر یہ کس نے اپنا کہہ کر دی ہے صدا اک وحشی کو
زنداں جس کے شور سے لرزا پاؤں پڑی زنجیریں ہیں
شمسؔ کی حالت کا مت پوچھو کچھ دن سے یہ حال ہوا
ہر دم تنہا سوچ میں بیٹھے دامن اپنا چیریں ہیں
غزل
کمرے کی دیواروں پر آویزاں جو تصویریں ہیں
شمس فرخ آبادی