EN हिंदी
کمرہ تو یہ کہتا ہے کچھ اور ہوا آئے | شیح شیری
kamra to ye kahta hai kuchh aur hawa aae

غزل

کمرہ تو یہ کہتا ہے کچھ اور ہوا آئے

حلیم قریشی

;

کمرہ تو یہ کہتا ہے کچھ اور ہوا آئے
کھڑکی سے نہ گزرے تو دیوار ہٹا آئے

سر پر ہے سفر اتنا خاموش ہو تم جتنا
جیتے ہو کہ مرتے ہو کوئی تو صدا آئے

آگے جو قدم رکھا پیچھے کا نہ غم رکھا
جس راہ سے ہم گزرے دیوار اٹھا آئے

اے منتظم ہستی! اک چھوٹی سی خواہش ہے
اس دن مجھے جینے دے جس روز قضا آئے

اب اس کو نمو دیکھیں دیتا ہے شجر کیسے
ٹوٹی ہوئی کچھ شاخیں مٹی میں دبا آئے