کمرہ تو یہ کہتا ہے کچھ اور ہوا آئے
کھڑکی سے نہ گزرے تو دیوار ہٹا آئے
سر پر ہے سفر اتنا خاموش ہو تم جتنا
جیتے ہو کہ مرتے ہو کوئی تو صدا آئے
آگے جو قدم رکھا پیچھے کا نہ غم رکھا
جس راہ سے ہم گزرے دیوار اٹھا آئے
اے منتظم ہستی! اک چھوٹی سی خواہش ہے
اس دن مجھے جینے دے جس روز قضا آئے
اب اس کو نمو دیکھیں دیتا ہے شجر کیسے
ٹوٹی ہوئی کچھ شاخیں مٹی میں دبا آئے

غزل
کمرہ تو یہ کہتا ہے کچھ اور ہوا آئے
حلیم قریشی