کم رنج موسم گل تر نے نہیں دیا
دل کے کسی بھی زخم کو بھرنے نہیں دیا
سارے ہی مستفیض ہوئے اس کی ذات سے
ہم کو ہی ایک پھل بھی شجر نے نہیں دیا
مرجھا گئی ہے تلخئ حالات سے مگر
کم ہے کہ ہم نے یاد کو مرنے نہیں دیا
جلتا چراغ دل شب ہجراں میں دیر تک
موقع مگر نمود سحر نے نہیں دیا
مخصوص تھی بس اس کے لئے دل کی گزر
ہم نے کسی کو یاں سے گزرنے نہیں دیا
ہم پر زمیں کا ایک ستارہ ہے ملتفت
رخ پر یہ نور شمس و قمر نے نہیں دیا
کچھ تو چراغ زیست کی لو بھی تھی ناتواں
اور کچھ ہوا نے اس کو ابھرنے نہیں دیا
ہم بھی تھے زندگی سے گریزاں تمام راہ
شانے پہ ہاتھ اس نے بھی دھرنے نہیں دیا

غزل
کم رنج موسم گل تر نے نہیں دیا
سلیم فراز