کم نگہی کا شکوہ کیسا اپنے یا بیگانے سے
اب ہم اپنے آپ کو خود ہی لگتے ہیں انجانے سے
مدت گزری ڈوب چکا ہوں درد کی پیاسی لہروں میں
زندہ ہوں یہ کوئی نہ جانے سانس کے آنے جانے سے
دشت میں تنہا گھوم رہا ہوں دل میں اتنی آس لیے
کوئی بگولہ آ ٹکرائے شاید مجھ دیوانے سے
جل مرنا تو سہل ہے لیکن جلتے رہنا مشکل ہے
شمع کی اتنی بات تو کوئی جا کہہ دے پروانے سے
لاکھ بتایا لاکھ جتایا دنیا کیا ہے کیسی ہے
پھر بھی یہ دل باز نہ آیا خود ہی دھوکے کھانے سے
اب تو چھو کر دیکھ نہ مجھ کو اپنی ٹھنڈی راکھ ہوں میں
ممکن ہے پھر شعلے بھڑکیں تیرے ہاتھ لگانے سے
لوگ سناتے ہیں کچھ قصے میرے عہد جوانی کے
جیسے ہوں یہ خواب کی باتیں ہوں یہ شمیمؔ افسانے سے
غزل
کم نگہی کا شکوہ کیسا اپنے یا بیگانے سے
مبارک شمیم