EN हिंदी
کم نہ ہوگی یہ سرگرانی کیا | شیح شیری
kam na hogi ye sargirani kya

غزل

کم نہ ہوگی یہ سرگرانی کیا

بکل دیو

;

کم نہ ہوگی یہ سرگرانی کیا
یوں ہی گزرے گی زندگانی کیا

اشک پہلے کہاں نکلتے تھے
ہو گئی آگ پانی پانی کیا

سارے کردار ایک ہی صف میں
ختم ہونے کو ہے کہانی کیا

آئنہ میں ہے پھر وہی صورت
یوں ہی ہوتی ہے ترجمانی کیا

ربط کتنا ہے دو کناروں میں
کوئی دریا ہے درمیانی کیا

مسکراہٹ پہ حیرتی کی گرہ
اور کھلنے لگے معانی کیا